Sunday 8 February 2015

کیا برطانیہ کا فرض غداروں کی حفاظت ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟

اگر ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب  'وہ'  ضیاءالحق کے دور میں اپنی اہل و عیال سمیت افغانستان فرار ہو گیا تھا۔ اس کے بیٹوں میں سے ایک نے کابل میں اپنی  ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے  روس کی طرف  رخ کیا جہاں سے 90ء کی دہائی میں وہ   پاکستان آگیا۔ اُسے  اتنے برسوں بعد بھی ملک واپسی پر کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اُس سے  نہ تو کوئی سوال کیا گیا  نہ ہی ان کے  سیاسی کیریئر میں کسی قسم کی رکاوٹ  پیدا کی گئی۔ 
1996ء میں یہ شخص  بلوچستان کاوزیرِ تعلیم منتخب ہوا مگر اپنے والد کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ماصوف نے نہ صرف اربوں کا غبن کیا بلکہ ساتھ ساتھ جسٹس نواز مری کے قتل میں بھی ملوث پایا گیا۔اُس کے پاس اس سب کے بعد یہی حل بچا کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح ملک سے فرار ہوجائے اور اُس نے یہی کیا۔۔۔  برطانیہ میں باقی ماندہ  اُن پاکستانی غداروں کی طرح سیاسی پناہ لے لی جو جرائم کی ایک لمبی لسٹ  اپنے ہمراہ لیے  برطانیہ میں سیاسی پناہ کے نام پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے  رہائش پذیر ہو جاتے ہیں۔ اب تک  قارئین اچھی طرح سمجھ چکے ہونگے کہ کن کا ذکر مبارک ہو رہا ہے مگر نئی نسل ان حضرت کو صرف نام سے جانتی ہو گی،انکے ماضی سے نہیں۔ دراصل یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ  'حربیارمری' ہے، نواب خیر بخش مری  کا  پانچواں بیٹا ، وہی نواب خیر  بخش  مری جو ضیاء کے دور میں افغانستان فرار ہوا تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ غداری میں حربیار مری اپنے والدپر  بھی سبقت لے گیا اور  بیرونِ ملک مقیم ہوتے ہی متعدد بین الاقوامی  ایجنسیز  کے ساتھ ملاقاتوں کا آغاز شروع کردیا، دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ لیا، کھربوں  کے  فنڈز  بھی ملے جو  ظاہری سی بات ہے ان لوگوں سے ملے جنکی برسوں سے بلوچستان کے   ''ان''  قیمتی ذخائر پر نظر تھی جو  ان کھربوں کے فنڈز سے کہیں زیادہ بیش قیمت ہیں جن پر حربیار  مری کو عیش کرائی جانی تھی ۔اسکے بدلے میں حربیار مری نے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو طول  دینا شروع کیا اور غیر ملکی اسلحے کی سمگلنگ کاکام تیز کر دیا۔
حربیار مری  کی  عسکریت پسندوں پر مبنی  یہ فوج صرف 500 افراد پر مشتمل ہے، جسے ''بی-ایل-اے'' یعنی  بلوچستان لبریشن آرمی  کا نام دیا گیا۔ یہ تنظیم جرائم پیشہ افراد پر مبنی ہے جو مختلف  وارداتوں میں  حکومت کو انتہائی مطلوب ہیں ۔ یہ افراد  چوری چکاری سے لیکر ڈکیتی ،بھتہ خوری،اغواء برائے تاوان حتٰی کہ قتل و غارت میں بھی ملوث پائے  جانے کی بناء پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے اشتہاری قرار دئیے جانے کے بعد یہاں آکر بس گئے تھے اور  ''بی-ایل-اے'' میں شمولیت کے بعد   نہ صرف اپنے گھناونےکاموں کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ اسلحہ اور طاقت کے زور پر پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں نہ صرف جدید غیر ملکی اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے بلکہ اس کے استعمال کرنے کے لیے خاص تربیت بھی دی جارہی ہے۔  گوکے یہ چند سو جرائم پیشہ افراد پر مبنی شر پسند تنظیم  تین لاکھ سنتالیس ہزار ایک سو نوے  (347،190)کلو میٹر کے رقبے پر محیط   علاقے میں موجود تقریباً 80 لاکھ لگ بھگ کی آبادی  پر اتنے بھاری اسلحے کے ساتھ بھی ہرگزقابض  نہیں ہوسکتی۔ البتہ   بدامنی پھیلانے اور املاک کو نقصان پہچانے میں کافی حد تک کارآمد ہو سکتی ہے اور ہو بھی رہی ہے۔
حربیار مری  کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ آئے دن 10 سے 12 افراد پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دےجو بیرونِ ملک کسی کونسل خانے کے باہر ''پلے کارڈز'' لیکر کھڑے ہو جائیں۔ پھر ان کی مختلف زاویوں سے لی گئی تصاویر کو بعد ازاں سوشل میڈیا پر ریلیز کر دیا جاتا ہے۔ اس سب سے یقیناً ہوتا تو  کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ حضور اپنی طرف سے ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ بلوچ عوام کے لیے آزادی کی تحریک ہے جو دنیا بھر میں چل رہی ہے۔  یہ سب اس قدر مضحکہ خیزلگ رہا ہوتا ہے کہ کیا  اب بیرونِ ملک بیٹھے یہ 10 سے 12 افراد لوگ 80 لاکھ کے قریب آبادی کی قسمت کا فیصلہ کریں گے؟ کیا یہ  عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے اب عام  غریب بلوچ عوام کی ترجمانی کریں گے جن کے لیے آج تک ان سرداروں اور نواب زادوں نے کچھ بھی نہیں کیا؟
 باظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ حربیار مری کی ان حرکتوں پر کوئی بھی کان نہیں دھرنے والا مگر یہ بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ثابت ہو گی جب دشمن وقت آنے پر حربیار کی ان حرکتوں کومہرہ بنا کے  کھیلے گا۔ جس کے لیے زمینی کاروائیوں کا آغاز بہت پہلے سے ہو چکا ہے( جس کا ثبوت سیکورٹی فورسز کی آئے دن کی کاروایئاں ہیں جن کے نتیجے میں اب تک بھاری مقدار میں غیر ملکی اسلحہ  بی-ایل-اے کے دہشتگردوں کے پاس سے مسلسل برآمد ہو رہا ہے)
ایک طرف تو کمال مہارت کے ساتھ پہلے ان شرپسندوں  نے عام شہریوں کو اغواء اور قتل کیا، بعد ازاں ''لاپتہ افراد''کے نام پر ایک ایسی مہم کا آغاز کیا جس کا مقصدقانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بناناتھا۔ اس سب میں خاص کر  فوج اور حساس اداروں کو موردالزام ٹھہرایا جاتا رہا۔ اس  مہم کو کامیاب بنانے کے لیے  بیرونی فنڈنگ پر چلنے والے ناموار نیوز چینلز نے خاص کردار ادا کیا ۔ صحافیوں کو خریدا گیا اور لاپتہ افراد کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ دوسری جانب یہ شرپسند مسلسل  ہمسایہ ممالک سے  بڑے پیمانے پر  اسلحہ  برآمد کر رہے تھے  جس سے املاک بلخصوص گیس پائیپ لائینز کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا۔
ان شرپسندوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی گئی مگر چونکہ ان کےپاس کہنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں تھا لہٰذا مذاکرات کا باب شرو ع ہونے سے پہلے  ہی بند ہو گیا۔ اب جب سیکورٹی فورسز  کی کاروائیاں کے نتیجے میں  غیر ملکی اسلحہ سمیت دہشتگردوں کی رنگے ہاتھوں  گرفتاریاں ہو رہی ہیں تو برطانیہ میں بیٹھے حربیار مری کو دن میں تارے نظر آنے لگے ہیں مزید براں حکومتِ پاکستان کی جانب سے پیش کردہ ثبوتوں کے بعد حربیار بھکلاہٹ میں الٹے سیدھے بیانات دینا شروع ہو گیاجن میں سے چند اہم یہ ہیں:
۔ پاکستان نے گزشتہ 67 سال سے بلوچستان پرطاقت کے زور پر  قبضہ کیا ہوا ہے۔ حربیار کا یہ بیان ایسے ہی ہے جیسے لندن کا کوئی امیر زادہ   ایک دن صبح اٹھے اور بیان دے دے کہ ''برطانیہ لندن پر  گزشتہ 400سال سے طاقت کے زور پر قابض ہے۔
 ۔  بلوچستان میں ہمارے  جیسے علیحدگی پسندوں پر پاکستان  بربریت اور ظلم کر رہا ہے لہٰذا ہم یہاں پناہ لینے  آگے ہیں- 1992 سے لیکر جب تک حربیار پاکستان میں رہا اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوا مگر جب لوٹ مار اور قتل کے مقدمہ میں ملوث پایا گیا تو برطانیہ فرار ہو کر ایسے بیان دینے شروع کر دئیے،دوسری جانب کیسے اپنی غریب عوام کو ،غیر ملکی اسلحہ سے لیس  500 شرپسندوں کے پاس تنہا چھوڑ کر اپنی جان بچا کے بھاگ گیا؟ صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ بلوچ عوام کا نہیں بلکہ مسئلہ حربیار مری کی اپنی حاکمیت کا ہے
۔  ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں ظلم ہو رہا ہے۔( انہیں وہاں بیٹھے کیسے معلوم ہوا کہ یہاں ظلم ہو رہا ہے؟)
۔ برطانیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ (بلکل برطانیہ کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔کیوں؟ کیونکہ آخر کو حربیار مری کے دہشت گرد غیر ملکی اسلحہ سے لیس بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں بیرونی طاقتوں کا پوری طرح ساتھ دے رہے ہیں، اس لیے بیرونی طاقتیں مشکل کی اس گھڑی میں اب حربیار مری کا  ساتھ دیں)
۔  پاکستانی فوج چین اور مغربی ممالک سے ہتھیاراور دیگر امداد  وغیر ہ  لےکر معصوم بلوچ عوام پر استعمال کر رہی ہے۔(صحیح ، یعنی حربیار کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ  500 شرپسند جو غیر ملکی اسلحہ سے لیس  بم دھماکے کرتے پھر رہے ہیں  وہ معصوم ہیں؟)
۔  پاکستانی جرنیل بد ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔  (بلکل صحیح !چونکہ  حکومتِ پاکستان کے حکم پر اب  شر پسندوں کو غیر ملکی  اسلحے سمیت گرفتار کیا جا رہا ہے لہٰذا اب سزا  جرنیلوں کو ملنی چاہیے ۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو گرفتاریوں کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا ۔پھر  ایسے حالات میں    ہمارے دہشتگرد  گیس کی  پائیپ لائینز کیسے اُڑائیں گے؟)
۔  بین الاقوامی  اخلاقی اور قانونی طور طریقوں کے تحت پاکستانی جرنیلوں پر جنگی جرائم کے الزامات  عائد کر کے انہیں یوگوسلاویہ اور جنرل" پینوشے" کی طرح    عالمی عدالتوں میں پیش کیا جائے (کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا توحربیار مری کو  غداری کی سزا کے طور پر جلد ہی  انگلستان نام کی گوری گوری حوروں والی  جنت سے نکال کر '  پاکستان کی کوٹ لکھپت جیل میں کسی  بڑی بڑی مونچوں والے ''رحم دل'' جیل سپرنٹنڈنٹ کے پاس پھینک دیا جائے گا)۔
۔  مجھ جیسے بہت سے لوگ  پاکستان سے فرار ہو کر بیرونِ ملک پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں  (وجہ؟کیونکہ کروڑوں  کا غبن اور قتل  وغارت کے بعد یہاں رہیں گے تو ایک نہ ایک دن پھانسی چڑھا دیئے جائیں گے۔ تو پھر کیوں نہ غداری کر کے  ملک سے دور بیٹھے اپنی باقی  کی زندگی عیش سے گزاری جائے)
یہ صرف وہ  چند چیدہ چیدہ باتیں ہیں  جو حربیار مری نے کہیں۔ اگر تفصیل میں جائیں تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کےحکومتِ پاکستان نے  چونکہ اب دہشتگردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا آغاز کر دیا ہے لہٰذا اب غداروں کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ اور اُسی کی ایک کڑی حربیار مری کے یہ  تازہ ترین  رونے  دھونے ہیں جو وہ برطانیہ میں اپنے آقاؤں کے آگے رو رہا ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا
''گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے''
"حربیار مری کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو وہ اپنے آقاؤں کی طرف دوڑ گیا"

2 comments:

  1. He's just a puppet used by endia & other foreign agencies for spreading hatred agnaist PAKISTAN.

    ReplyDelete
  2. Harbyar is a rabbid dog who should be sorted out and Britain shall stop sheltering criminals like him

    ReplyDelete