Friday, 6 March 2015

بلوچستان ۔بیرونی طاقتیں  ، سازشیں اور اثرات
آبِ کوثر
    حالیہ دنوں میں ایک رپورٹ نظر کے سامنے سے گزری، اس رپورٹ میں صرف کچھ اعداد و شمار ہی تھے جو میرے لیے نئے تھے باقی تمام باتوں سے تو قارئین بھی اچھی طرح واقف  ہونگے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح  دھماکہ خیز مواد مختلف راستوں سے ہوتا ہوا بلوچستان تک پہنچا یا گیا ۔  یہ رپورٹ میری راتوں کی نیند حرام کر دینے کے لیے کافی تھی، رپورٹ میں صاف صاف درج تھا  کہ صرف 2013ء میں سیکورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیز کی مشترکہ کاروائیوں کی مدد سے کس طرح پاکستان ایک بڑی تباہی سے بچ گیا۔
            رپورٹ کے مطابق  چار راستوں کا ذکر کیا گیا جہاں سےغیر ملکی طاقتوں کا بھیجا گیا  بارودی مواد بلوچستان پہنچایا جاتا رہا ۔ ان راستوں میں افغانستان، بحیرہ عرب،  مکران اور ایران کے راستے  شامل تھے۔   تفصیلات دینے سے پہلے ایک مثال بھی دی گئی تھی جو یہاں قارئین کو معلوم ہونا ضروری ہے۔  2008ء میں اسلام آباد کے  میریٹ ہوٹل میں ایک  دھماکا ہوا جس  میں 600 کلوگرام  دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔دھماکے کی شدت سے زمین پر 6 میٹر گہرا گڑھا بھی  پڑ گیا  جسکی چوڑائی 20 میٹر تھی۔ حملے میں 266 کے قریب زخمیوں اور 54 کے قریب ہلاکتوں کی بھی تصدیق کی گئی تھی ۔   جبکہ میریٹ ہوٹل مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا ۔
            اب  بات کرتے ہیں اصل موضوع پر کہ آخر یہ دھماکہ خیز مواد پاکستان میں آتا کیسے ہے۔ سب سے پہلے ایران کا ذکر آتا ہے،جہاں 2013ء میں تفتان سے ہوتے ہوئے چاغی (جہاں سے دہشتگرد تنظیم  '' بی ایل اے '' دہشتگردانہ کا روایئاں کرتی ہے) اور چاغی سے  مستونگ  (جہاں سے دہشتگرد تنظیم '' بی آر اے''دہشتگردانہ کاروائیاں کرتی ہے)اور پھر کوئٹہ یہ  پہنچایا جاتا رہا۔ یہ سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے کہ یہاں سے پکڑے جانے والے بارودی مواد  میں  40 ٹن پوٹاشیم کلوریٹ،  25 ٹن امونیم کلوریٹ،  7 ٹن کے قریب سلفر (گندھک)،  28 خودساختہ بارودی سرنگیں  اور20 خودساختہ اسلحہ وبارود کے ذخائر شامل ہیں۔  پکڑے جانے والا یہ اسلحہ وبارودمیریٹ ہوٹل جیسے 92 دھماکے کرنے کے لیے کافی ہے۔
            اب باری آتی ہے مکران کی جہاں سےدھماکہ خیز مواد گوادر (جہاں سے دہشتگرد تنظیم '' بی
ایل ایف '' دہشتگردانہ کاروائیا ں کرتی ہے) کے راستے ہوتا ہوا تربت(جہاں سے دہشتگرد تنظیم '' بی ایل اے '' اور ''بی ایل ایف'' دہشتگردانہ کاروائیاں کرتی ہیں ) سے  پنجگور(جہاں سے دہشتگرد تنظیم '' بی ایل ایف'' اور ''بی آر اے'' دہشتگردانہ    کاروائیاں کرتی  ہیں)   سے'' سوراب'' میں لشکرِ بلوچستان کے گڑھ سے ہوتا ہوا مستونگ میں ''یو بی اے'' کے دہشتگردوں کے ذریعے کوئٹہ پہنچایا گیا۔ یہاں سے 228 کلو گرام دھماکہ خیز مواد جبکہ ایک ہزار تین سو پچاس (1،350) کے قریب  خود ساختہ اسلحہ و بارود حراست میں لیا گیا۔
            تیسرے نمبر پربحرہ عرب آتا ہے ۔ یہ راستہ تھوڑا مختصر ہے یعنی خضدر سےسوراب  اور پھرسوراب  سے  مستونگ  ۔ ان راستوں میں بلترتیب لشکرِجھنگوی بلوچستان اور ''یو بی اے''کے دہشتگردوں کی بڑی تعداد ہے۔۔۔اعداد و شمار کے مطابق یہاں سے 2013ء  میں 102 ٹن کے قریب بارودی مواد پکڑا گیا جو میریٹ ہوٹل جیسے 102 حملے کرنے کے لیے کافی ہے۔
            چوتھا اور سب سے اہم راستہ   افغانستان سے آنے والا   راستہ  ہے جو باقی راستوں کی نسبت قریب ترین ہے کیونکہ یہاں کندھار سے اسپن بولدک  اور اسپن بولدک سے  بارودی مواد مستونگ پہنچایا جاتا رہا ۔ پکڑے جانے والے بارودی مواد کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ  8 ٹن بارودی مواد، ایک ہزار دو سو دس دھماکہ خیز مواد ، 6 ہزار ایک سو ننانوے بارودی سرنگیں اور ایک سو آٹھ خودکش جیکٹس  جو سیکورٹی فورسز نے مختلف کاروائیوں میں ضبط کیں۔ یہ سب پاکستان میں ہونا اور افغانستان میں آٹھ عدد بھارتی کونسل خانوں کا ہونا کوئی  اتفاق کی بات نہیں ۔  کیونکہ پکڑے جانے والا اسلحہ بھارتی  ساختہ تھا  جو خاص کر بھارتی فوج کے زیرِاستعمال ہوتا ہے۔ اس سب پر متعدد قارئین یہ سوال اُٹھائیں گے کہ بھارتی اسلحہ وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں آخر  پاکستان میں آیا کیسے؟  اس کا جواب بھی  بہت مختصر ہے۔ یاد رہے کہ آبادی کے اعتبار سے بلوچستان پاکستان کا سب سےچھوٹا جبکہ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا  صوبہ ہے۔ کچھ مقامات تو ایسے ہیں جہاں 60 سے 70 کلو میٹر تک تو نہ بندہ نہ بندے کی ذات نظر آتی ہے۔ آبادی کی کمی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہاں پر تخریب کاری  کے آلات کو لانا لے جانا ایک بہت ہی  آسان سی بات ہے، خاص کر اگر وہاں کے گردونواں میں 'بی ایل اے'، 'بی آر اے'، 'بی ایف اے'، 'یو بی اے' اور لشکرِجھنگوی بلوچستان جیسی متعدد تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں ۔
            2013ء کی یہ رپورٹ اس بات کو ثابت کر دینے کے لیے کافی ہے کہ کس طرح بیرونی طاقتیں خاص کر بھارت ،پاکستان میں بد امنی پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ اگر ان تنظیموں کو جڑ سے ختم کرنے میں مزید دیر ہوئی تو شائد ایک اور ضربِ عضب بھی اس فتنے کو ختم کرنے میں دہائیاں لگا دے گا۔

6 comments:

  1. Now it is very clear to me that it is for sure the outsiders who are responsible for prevailing bloodshed in Balochistan

    ReplyDelete
    Replies
    1. You are right but the sad thing is that they cannot do this without insiders help...so these insiders must be eliminated

      Delete
  2. Right without insider possible nai ..

    ReplyDelete
  3. Crush the anti elements

    ReplyDelete
  4. ALLAH hum sab pakistanio ko in dushmano k khilaf muthid rakhy...
    or is mulk ko haqeeqi maeno mein islam ka qila k jis maqsad k liye yh wajood mein aya banaye...Ameen

    ReplyDelete