Tuesday 26 May 2015

زندہ لاکھ کا،تو مرا ؟

اگر آپ اپنے گردو نواح  کا جائزہ لیں توآپ کو بہت سی ایسی مخلوقات اپنے اردگرد  چلتی پھرتی دیکھائی دیں گی جو بظاہر تو اپنے آپ کو انسانی حقوق کے کارکن (ہیومن رائیٹ ایکٹوسٹ)کہتی نظر آئیں گی مگرحقیقت میں ان کا انسانی حقوق سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہو گا۔  یقین کریں، اگر ان سے متعلق آپ ایک سے دو دن بھی  ہلکا پھلکا سا مطالعہ کر لیں  گے تو ان کی متعصب اور یکطرفہ سوچ سے اچھی طرح سے واقف ہو جائیں گے۔ باقی سب کو تو چھوڑ ہی  دیجئے، مجھ سے خود بھی ان کو سننے کی غلطی سرزد ہوئی تھی  اسی لیے  میں یہ سوچ سوچ کر  حیران ہوں کہ لوگ آخر  ان پر یقین کر کیسے لیتے ہیں؟
تو 9 اپریل 2015 بروز جمعرات  شام 6 بج کر 30 منٹ پر  پاکستان کی معروف نجی  یونیورسٹی " لمز " کے شعبہ سیاسیات نے ایک سیمینار منعقد کرنا تھاجو شروع ہونے سے پہلے ہی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو منسوخ کرنے کاحکم جاری کر دیا گیا تھا، جس پر سیمینار  منعقد کرانے والوں نے سوشل میڈیا پر فوراً  ہی پاکستان کی ایجنسیز کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کر دیا۔ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ پہلے سے ہی شور شرابے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے تھے، دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ حضرات ٹویٹر پر یہ کہتے نظر آئے  کہ اس سیمینار کو "ڈی- جی -آئی- ایس -آئی" کے براہ راست حکم سے منسوخ کرایا گیا ہے۔
اس بات کے چند گھنٹوں کے اندر ہی بہت سے حقائق سامنے آنا شروع ہو گئے جن  میں سے چیدہ چیدہ یہ ہیں۔۔۔ سیمینار کو منعقد کرنے والے  ڈاکٹر تیمور رحمان تھے، مہمانوں میں 2 اور اہم ناموں کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے ، ایک ماما قدیر اور دوسرا  'میر محمد علی تال پور۔  تھوڑی سی ہی تحقیق کرنے پر کچھ حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے، میر محمد علی تال پوردراصل  اسد رحمان  جو کہ تیمور رحمان کے سگے چچا ہیں کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔۔اگر ان کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے سوالات کے جواب ایسے ہولناک آئیں گے کہ کسی  بھی محب وطن پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ بن سکتے ہیں۔  میر محمد علی تال پور اور اسد رحمان  آج سے 4 دہائی پہلے سویت اور بھارتی خفیہ ایجنسیز کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف افغانستان میں بیٹھ کر سازشیں رچاتے رہے ہیں(سویت انٹیلیجنس سروس  نے "بی-ایس-او " کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے افغانستان میں تیار کروایا تھا)۔
لمز یونیورسٹی ان حضرات کی حرکتوں سے باخوبی واقف ہو گئی اس لیےسیمینار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہونا تھا، لہذا انہوں نے ایک نیا ہدف تلاش کیا۔ وہ نیا ہدف کراچی کی ایک خاتون "سبین محمود"تھی جو غریبوں کے لیئے اپنے دل میں  بہت درد رکھتی تھی۔ سیمینار منعقد کروانے کے لیے سبین کے سامنے یقیناً وہی رونے روئے گے جو ماما قدیر ہر جگہ روتا پھرتا تھا۔ سبین محمود نےماما قدیر پر ترس کھا کر  ان لوگوں کے لیے سیمینار منعقد کروا دیا۔ مگر ستم ظریفی دیکھیں کہ جس عورت کو انہوں نے مدد کے بہانے ورغلایا، اسی کی پیٹھ میں اپنے مفادات کے لیےبعد ازاں چھرا بھی گھونپ ڈالا۔ چونکہ سیمینار سے کسی قسم کا فائدہ ان لوگوں کو نہیں پہنچا اور کوئی میڈیا کورئج بھی حاصل نہیں ہوئی تو سیمینار کے فوراً بعد سبین کو گھر جاتے ہوئے رستے میں ہی گولیا ں مار کر قتل کر دیا گیا،بلکل ایسے ہی جیسے بلوچستان میں بی-آر-اے اور بی-ایل-اے کے وہ دہشت گرد غریب بلوچ عوام کا قتل کرتے تھے جن کے لیے ماما قدیر اور ان کا بیٹا کام کرتے تھے۔
 تیمور رحمان جس لابی میں ہے  اور جس سیاسی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے اس پر مجھے اب کوئی شک نہیں رہا، اور ماما قدیر کی حقیقت تو بہت پہلے ہی سامنے آگئی تھی۔اتنا کچھ ہو گیا  مگر نہ تو جلیل ریکی کے باپ   ماما قدیر کو کچھ ہوا اور نہ ہی اسد رحمان کے بھتیجےتیمور لال  کو کچھ ہوا۔ مگر نقصان ہوا کس کا؟؟ وہ جو ان کی باتوں میں آگئی تھی؟
میرا ماننا ہے کہ چونکہ ان لوگوں  کے ماضی سے متعلق عام لوگ نا واقف ہیں لہذا وہ ان لوگوں کی الٹی سیدہی باتوں میں  بھی جلدی آ جاتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والا سبین محمود کا قتل  کیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ سبین محمود کے ذریعے پہلے سیمینار منعقد کرایا  گیا تاکہ لمز کی طرزکا ایک اور "سین کیریٹ" کیا جا سکے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور نہ ہی کسی نے اس معمولی سے سیمینار کو سنجیدگی سے لیا۔ پھرماما قدیر اور اس کے ساتھی کیسے سب کی توجہ حاصل کرتے؟ سبین کو قتل کروا  کے اگر الزام پھر سے حساس اداروں پر لگا دیا جائے تو ظاہری سی بات ہےجیسے نا معلوم افراد والا ڈنکنا بجا تھا ویسے ہی اس "سٹنٹ" کے ذریعے ماما قدیر کی ڈوبتی ہوئی ساک دوبارہ سے بحال کی جا سکتی تھی۔ سبین کی مثال ان لوگوں کے لیے اُس ہاتھی کی سی تھی جو اگر زندہ لاکھ کا ہوتا ہے تو مرنے کے بعد سوا لاکھ کا ہو جاتا ہے۔ ۔ افسوس کے ماما قدیر کی حقیقت سےچونکہ عام عوام نا واقف ہیں لہذا ہمیں سبین جیسی خاتون کی جان سے اسکی قیمت ادا کرنی پڑی۔۔

میری درخواست ہے کہ ماما قدیر اور دہشت گردوں کے باقی ماندہ تمام ترجمانوں اور حمایتیوں کے ساتھ ریاست سختی سے نبٹے، حکومت چھوٹے بچوں کی طرح آرمی کی انگلی تھام کر جیسے پاؤں پاؤں چل رہی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ جیسے ہم نے حکمرانوں کو ووٹ نہیں دیا بلکہ دودھ پیتا بچہ گود لے لیا ہے جسکی حفاظت بھی ہمارے پیش پڑ گئی ہے۔

No comments:

Post a Comment