مئی
2012، لاپتہ افراد کے لئے بنائے جانے والے کمیشن کے چیف 'جسٹس(ر) جاوید اقبال' نے
کمیشن کو یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ لاپتہ افراد سے متعلق کئے جانے والا پروپیگنڈہ نہ
صرف بے بنیاد ہے بلکہ اس پروپیگنڈے کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بدنام
کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب حقائق سامنے آنا شروع ہوئے تو معلوم ہوا کہ اس پروپیگنڈے کا مقصد صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بدنام کرنا ہی نہیں تھا بلکہ اسکی آڑ میں بہت سے گھناؤنے رازوں پر پردے ڈالنا بھی تھا۔ جیساکہ لاپتہ افراد جن کا زوروشور سے چرچہ ہو رہا تھا وہ افراد اچانک غائب کیسے ہوئے؟ ان کو غائب کرنے سے فائدہ کسے ہوا؟ انہیں زمین نگل گئی یا آسماں؟ ان تمام سوالوں سے جان چھڑانے کا ایک بہت اچھا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس طرح کی باتیں ڈال دی جائیں جن سے نہ صرف ان سوالات سے جان بخشی ہوجائے بلکہ اس سے پہلے کہ سوالات کی بھونچاڑ ہم پر ہو الٹا ہم دوسروں پر شروع کر دیں۔
یہ دوسرے کون ہیں؟ ظاہر ہے وہی، جو یہ ملک، دشمن کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ٹوٹنے نہیں دے رہے ہیں۔ ایک طرف وہ سردار اور نواب جو غریب بلوچ عوام پر صدیوں سے نہ صرف حاکم بنے بیٹھے ہیں بلکہ اس عوام کو اس قدر پسماندہ حالت میں رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں ان میں سے کوئی پڑھ لکھ کر انکے مقابلے پر کھڑا نہ ہو جائے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ اپنی حاکمیت کس پر جھاڑیں گے؟
دوسری جانب ماما قدیر نامی ایک کردار لا کھڑا کرنا جس کا اپنا ماضی نہایت ہی مشکوک ہے، '' یو۔ بی۔ ایل '' میں کچھ سال قبل ملازمت سے ہاتھ دھونے والا یہ شخص درحقیقت غبن کرتے پکڑا گیا تھا مگر چونکہ اسکا بیٹا بلوچستان میں بدامنی پھیلانے والی ایک تنظیم کا سرگرم کارکن تھا لہذا مقدمہ دائر کرنا تو دور کی بات، کس مائی کے لال میں اتنی جرات نہ تھی کہ ماما قدیر سے انکے ڈھیروں ڈھیر اسلحے سے لیس بھانجوں کے ہوتے ہوئے سوال بھی کر جائے۔ ماما قدیر کے بیٹے کی سرگرمیاں کسی بھی عام انسان کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھیں۔ مصوف انسانی سمگلنگ کے علاوہ کم عمر بچوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں بم نصب کرنے کی تربیت دلواتے تھے جس کے دوران بہت سے بچے دوران تربیت ہی مارے جاتے تھے۔
ان حضرت کی اضافی خوبی کا قارئین کے سامنے ذکر نہ کرنا بھی سرا سر زیادتی ہوگی، تو چلیں پھر ذرا دل تھام لیں۔ ۔ ۔ جس انسانی سمگلنگ کا گزشتہ پیراگراف میں ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق اُن کیمپوں سے ہے جو افغانستان اور بھارت میں دہشتگردوں کو تخریب کاری کی تربیت دے کے افغانستان کے راستے بلوچستان سے ہوتے ہوئے پاکستان کے مختلف شہروں میں منظم قسم کے حملے کرانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اسی سمگلنگ کے دوران جب بگٹی امن فورس جلیل ریکی ( ماما قدیر کے بیٹے) کے عسکریت پسند گروپ کو پکڑ لیتی ہے اور دونوں جانب سے فائرنگ کے تبادلہ کے دوران جلیل بھی مارا جاتا ہے جسکی خبر ٹیلیویژن نیوز چینل کے ذریعے پھیلتی ہے۔ ایسے میں ماما قدیر کو دن میں تارے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اب چونکہ جھوٹ پکڑا گیا تو ماما جی نے کہانی کو نیا رنگ دینا شروع کیا جو کسی حد تک ماما قدیر کو بےچارہ ثابت کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوا۔
ماما قدیر کے دھرنوں اور لانگ مارچ کے سلسلے شروع ہوتے ہیں اور بقول ماما جی کے 21ہزار لاپتہ افراد کے لواحقین اس لانگ مارچ کا حصہ بنتے ہیں مگر تصاویر اُٹھا کے دیکھی جائیں تو 21ہزار لاپتہ افراد کے لواحقین میں سے 21سو بھی وہاں موجود نہ تھے۔ کل ملا کے ہر تصویر میں مجھے 21سے 22 افراد ہی ہر جگہ دیکھائی دیئے۔
سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے اعلی حکام کہاں سو رہے ہیں؟ ایک ایسا شخص جو دہشتگردوں کو اس طرح سے پورٹریٹ کرتا ہے کہ فوج کے شہداء تو ایک طرف بے گنا بازاروں مسجدوں اور حتی کہ پرامن مذہبی جلوسوں سے لیکر ٹرینوں تک میں بم دھماکے کرنے والے معصوم اور انہیں روکنے والے بُرے؟ آفرین ہے ان سب پر جو ابھی بھی ماما قدیر کی یہ سب باتیں نہ صرف سنتے ہیں بلکہ دہشتگردوں کے اس ماموں کو بک بک کرنے کے لیے اپنے پروگراموں میں مدعو بھی کرتے ہیں۔
میری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گزارش ہے کہ ماما قدیر جو نہ صرف پورے ملک کو ماموں بنانے کے چکروں میں ہے بلکہ ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف بھی سازشیں کر رہا ہے۔
اس شخص کو کوئی بھی نجی ادارہ چھان بین کر کے نہیں بلاتا۔ اسی لیے کوئی بھی اسکے ماضی سے واقف نہیں ہے لہذا یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک میں ایسے تمام لوگوں کو بے نقاب کریں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب حقائق سامنے آنا شروع ہوئے تو معلوم ہوا کہ اس پروپیگنڈے کا مقصد صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بدنام کرنا ہی نہیں تھا بلکہ اسکی آڑ میں بہت سے گھناؤنے رازوں پر پردے ڈالنا بھی تھا۔ جیساکہ لاپتہ افراد جن کا زوروشور سے چرچہ ہو رہا تھا وہ افراد اچانک غائب کیسے ہوئے؟ ان کو غائب کرنے سے فائدہ کسے ہوا؟ انہیں زمین نگل گئی یا آسماں؟ ان تمام سوالوں سے جان چھڑانے کا ایک بہت اچھا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس طرح کی باتیں ڈال دی جائیں جن سے نہ صرف ان سوالات سے جان بخشی ہوجائے بلکہ اس سے پہلے کہ سوالات کی بھونچاڑ ہم پر ہو الٹا ہم دوسروں پر شروع کر دیں۔
یہ دوسرے کون ہیں؟ ظاہر ہے وہی، جو یہ ملک، دشمن کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ٹوٹنے نہیں دے رہے ہیں۔ ایک طرف وہ سردار اور نواب جو غریب بلوچ عوام پر صدیوں سے نہ صرف حاکم بنے بیٹھے ہیں بلکہ اس عوام کو اس قدر پسماندہ حالت میں رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں ان میں سے کوئی پڑھ لکھ کر انکے مقابلے پر کھڑا نہ ہو جائے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ اپنی حاکمیت کس پر جھاڑیں گے؟
دوسری جانب ماما قدیر نامی ایک کردار لا کھڑا کرنا جس کا اپنا ماضی نہایت ہی مشکوک ہے، '' یو۔ بی۔ ایل '' میں کچھ سال قبل ملازمت سے ہاتھ دھونے والا یہ شخص درحقیقت غبن کرتے پکڑا گیا تھا مگر چونکہ اسکا بیٹا بلوچستان میں بدامنی پھیلانے والی ایک تنظیم کا سرگرم کارکن تھا لہذا مقدمہ دائر کرنا تو دور کی بات، کس مائی کے لال میں اتنی جرات نہ تھی کہ ماما قدیر سے انکے ڈھیروں ڈھیر اسلحے سے لیس بھانجوں کے ہوتے ہوئے سوال بھی کر جائے۔ ماما قدیر کے بیٹے کی سرگرمیاں کسی بھی عام انسان کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھیں۔ مصوف انسانی سمگلنگ کے علاوہ کم عمر بچوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں بم نصب کرنے کی تربیت دلواتے تھے جس کے دوران بہت سے بچے دوران تربیت ہی مارے جاتے تھے۔
ان حضرت کی اضافی خوبی کا قارئین کے سامنے ذکر نہ کرنا بھی سرا سر زیادتی ہوگی، تو چلیں پھر ذرا دل تھام لیں۔ ۔ ۔ جس انسانی سمگلنگ کا گزشتہ پیراگراف میں ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق اُن کیمپوں سے ہے جو افغانستان اور بھارت میں دہشتگردوں کو تخریب کاری کی تربیت دے کے افغانستان کے راستے بلوچستان سے ہوتے ہوئے پاکستان کے مختلف شہروں میں منظم قسم کے حملے کرانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اسی سمگلنگ کے دوران جب بگٹی امن فورس جلیل ریکی ( ماما قدیر کے بیٹے) کے عسکریت پسند گروپ کو پکڑ لیتی ہے اور دونوں جانب سے فائرنگ کے تبادلہ کے دوران جلیل بھی مارا جاتا ہے جسکی خبر ٹیلیویژن نیوز چینل کے ذریعے پھیلتی ہے۔ ایسے میں ماما قدیر کو دن میں تارے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اب چونکہ جھوٹ پکڑا گیا تو ماما جی نے کہانی کو نیا رنگ دینا شروع کیا جو کسی حد تک ماما قدیر کو بےچارہ ثابت کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوا۔
ماما قدیر کے دھرنوں اور لانگ مارچ کے سلسلے شروع ہوتے ہیں اور بقول ماما جی کے 21ہزار لاپتہ افراد کے لواحقین اس لانگ مارچ کا حصہ بنتے ہیں مگر تصاویر اُٹھا کے دیکھی جائیں تو 21ہزار لاپتہ افراد کے لواحقین میں سے 21سو بھی وہاں موجود نہ تھے۔ کل ملا کے ہر تصویر میں مجھے 21سے 22 افراد ہی ہر جگہ دیکھائی دیئے۔
سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے اعلی حکام کہاں سو رہے ہیں؟ ایک ایسا شخص جو دہشتگردوں کو اس طرح سے پورٹریٹ کرتا ہے کہ فوج کے شہداء تو ایک طرف بے گنا بازاروں مسجدوں اور حتی کہ پرامن مذہبی جلوسوں سے لیکر ٹرینوں تک میں بم دھماکے کرنے والے معصوم اور انہیں روکنے والے بُرے؟ آفرین ہے ان سب پر جو ابھی بھی ماما قدیر کی یہ سب باتیں نہ صرف سنتے ہیں بلکہ دہشتگردوں کے اس ماموں کو بک بک کرنے کے لیے اپنے پروگراموں میں مدعو بھی کرتے ہیں۔
میری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گزارش ہے کہ ماما قدیر جو نہ صرف پورے ملک کو ماموں بنانے کے چکروں میں ہے بلکہ ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف بھی سازشیں کر رہا ہے۔
اس شخص کو کوئی بھی نجی ادارہ چھان بین کر کے نہیں بلاتا۔ اسی لیے کوئی بھی اسکے ماضی سے واقف نہیں ہے لہذا یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک میں ایسے تمام لوگوں کو بے نقاب کریں۔
hang the traitors.............
ReplyDeleteTehqiq toh Hunna chahai > Ye koi Janglistan toh nahi hy k har bnda ah k kehta peren ..... aur Edaron ka mazaq kya k Unki saqq ko b kharab aur Mashkok kre.
ReplyDelete